موہنجو داڑو یورپ کو گفٹ کر دیں

موہنجو داڑو دنیا کا پہلا میٹرو پولیٹن‘ میگا اور پلینڈ سٹی تھا‘ یہ دو ہزار چھ سو قبل مسیح (یعنی ساڑھے چار ہزار سال) میں بھی موجودتھا‘ ہم اگر اہرام مصر کے بعد کسی انسانی شاہکار کو عجوبہ کہہ سکتے ہیں تو وہ موہنجو داڑو ہوگا اور میں ہفتے کی دوپہر وہاں پہنچ گیا‘ میں آدھی سے زائد دنیا دیکھ چکا ہوں‘ صرف موہنجو داڑو بچا تھا چنانچہ میں نے جمعہ کی شام سکھر کی فلائیٹ لی‘ رات سکھر میں قیام کیا اور ہفتے کی دوپہر موہنجو داڑو پہنچ گیا‘ یہ سکھر سے 80 اور لاڑکانہ سے 20 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے‘
شہر گیارہ ہزار ایکڑ پر مشتمل تھا‘ اس کا صرف 10 فیصد حصہ کھود کر نکالا گیا اور یہ 10 فیصد بھی 1922ءسے
1933ءکے دوران انگریزآرکیالوجسٹ نے نکالا جبکہ ہم نے پچھلے 86برسوں میں ان آثار میں ایک فیصد بھی اضافہ نہیں کیا‘ یہ شہر کتنا اہم تھا آپ اس کا اندازہ چند حقیقتوں سے لگا لیجئے‘ دنیا میں تین قدیم ترین تہذیبیں ہیں‘ دریائے نیل‘ میسوپوٹیمیا اور دریائے سندھ کی تہذیبیں‘ دریائے نیل نے مصر کی تہذیب کو جنم دیا ‘ میسو پوٹیمیا نے دو دریاﺅں دجلہ اور فرات کے درمیان جنم لیا ‘ یہ دونوں دریا ترکی سے نکلتے ہیں اور یہ ایران‘شام اور عراق سے بے شمار علاقوں کو سمیٹ کر خلیج فارس میں جا گرتے ہیں‘ ان دونوں دریاﺅں کے درمیان کی زمین میسو پوٹیمیا کہلاتی تھی اور تیسری اہم ترین تہذیب انڈس (دریائے سندھ) کی تہذیب تھی‘ باقی ساری دنیا نے ان تینوں تہذیبوں کے بطن سے جنم لیااور موہنجو داڑو انڈس سولائزیشن کا قدیم ترین میٹرو پولیٹن شہر تھا‘ یہ دنیا کا پہلا شہر تھا جس کی تمام گلیاں سیدھی اور کھلی تھیں‘ جس میںانسان نے پانی کا پہلا تالاب بنایا‘ جس میں پہلی بار پبلک ٹوائلٹ‘ پبلک باتھ‘ سیوریج سسٹم اور کچرہ کنڈی بنائی گئی‘ جس میں نالیوں کا جال تھا اور تمام نالیاں اوپر سے بند تھیں‘ جس میں تاریخ میں پہلی بار گلیزڈ ٹائلزاور پہلی بار تارکول استعمال کی گئی‘ جس میں پہلا کالج بنایا گیا‘ جس میں عوامی کنوئیں کھودے گئے‘ جس میں باقاعدہ سرونٹ کوارٹرز اور مارکیٹ بنائی گئی اور جس میں امیر‘ مڈل اور لیبر کلاس تین طبقوں کو الگ الگ آباد کیا گیا‘ یہ تلوار کی ایجاد سے بھی پہلے کا شہر تھا اور میں اس وقت اس شہر میں تھا جسے تہذیب اور تاریخ گزرے وقت کی آخری یادگار قرار دیتی ہے‘ جو آرکیالوجی اور تہذیبی دریافت کا قبلہ ہے۔
موہنجو داڑو کے پانچ حصے ہیں‘ڈی کے کا ایریا کے این ڈکشٹ نے 1922ءسے 1933ءکے درمیان دریافت کیا تھا‘ یہ امراءکا علاقہ تھا‘ گھر بڑے اور دو منزلہ تھے‘ نچلی منزل میں کچن‘ باتھ روم ‘ کنواں اور مہمان خانہ ہوتا تھا ‘ رہائش دوسری منزل پر ہوتی تھی‘ پانی کو آلودگی سے بچانے کےلئے کنوئیں کے اوپر بھی چھت ڈالی جاتی تھی‘ باتھ روم کی ڈرینج کےلئے گلیزڈ ٹائلیں استعمال کی جاتی تھیں‘ یہ ٹائلیں آج بھی چکنی ہیں‘ گھروں میں ہوا کی کراسنگ کا بندوبست تھا‘ چھتیں اونچی اور فرش پکے تھے‘
گھروں کو ٹھنڈا رکھنے کےلئے بیرونی دیواروں پر مٹی کا لیپ کیا جاتا تھا‘ ان لوگوں نے جپسم‘ چونے کا پتھر‘ ہڈیوں کا برادہ اور گوند ملا کر سیمنٹ بنالیا تھا‘ دیواروں کی چنائی میں یہ سیمنٹ استعمال ہوتا تھا‘ یہ تارکول بھی استعمال کرتے تھے‘ شہر میں 8 بائی 23 فٹ کا تالاب تھا‘ تالاب کے پیندے میں باقاعدہ تارکول کا لیپ کیا گیا تھا‘ میں نے گائیڈ سے عرض کیا برصغیر میں تارکول نہیں پایا جاتا‘ گائیڈ نے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا یہ لوگ اومان (مسقط) سے تارکول درآمد کرتے تھے‘
ان کے سکے اور برتن اومان‘ مصر اور میسوپوٹیمیا تینوں جگہوں سے ملے ہیں‘ یہ سکے ثابت کرتے ہیں یہ لوگ مصنوعات وہاں سے منگواتے تھے‘ کالج کے ساتھ بڑا کنواں تھا اور کنوئیں کے ساتھ گھڑے رکھنے کا چبوترا تھا‘ یہ ثابت کرتا ہے یہ لوگ گھڑے بھر کر چبوترے پر رکھ دیتے تھے تاکہ طالب علم استعمال کر سکیں‘ پبلک ٹوائلٹس بھی ساتھ تھے‘ یہ گھڑے وہاں بھی استعمال ہوتے ہوں گے‘ دس فیصد دریافت شدہ علاقے میں سات سو کنوئیں اور 80 پبلک ٹوائلٹس ہیں‘
آپ اس سے ان کی صفائی پسندی‘ سولائزیشن اور ماڈرن ہونے کا اندازہ کر لیجئے‘ ہم آج کے دور میں بھی لاہور اور کراچی جیسے شہروں میں 80 پبلک ٹوائلٹس نہیں بنا سکے جبکہ موہنجو داڑو کے دس فیصد ایریا میں سات سو کنوئیں اور 80 پبلک ٹوائلٹس تھے اوریہ گھروں کے اندر موجود ٹوائلٹس کے علاوہ ہیں‘ اٹیچ باتھ کا یہ تصور میسو پوٹیمیا اور مصری تہذیب میں نہیں ملتا‘ شہر میں اناج گھر بھی تھا اور اس سے ساڑھے چار ہزار سال پرانی گندم بھی ملی‘ ڈی کے ایریا کے بعد ایچ آر کا علاقہ تھا‘
یہ علاقہ ہیرالڈ ہرگریوز  نے 1924-25ءمیں دریافت کیا تھا اور یہ مزدوروں کا علاقہ تھا‘ اس سے اینٹیں بنانے کے آلات اور دوسرے اوزار بھی ملے اور 14 مزدوروں کے اجتماعی ڈھانچے بھی‘ یہ لوگ کاٹن کا کپڑا بھی بناتے اور استعمال کرتے تھے‘ میسو پوٹیمیا اور ان کا لباس ایک جیسا تھا‘ یہ صرف دو رنگ استعمال کرتے تھے‘ کالا اور نیلا‘ یہ اس کے علاوہ کوئی اور رنگ نہیں بنا سکے تھے‘ رنگ اور ہندوازم ان کے بعد آئے چنانچہ یہاں سے مُردوں کو جلانے اور پوجنے والی مورتیوںکے آثار دریافت نہیں ہوئے‘
کوئی رنگین چیزبھی نہیں ملی‘ یہ مُردوں کو تین طریقوں سے دفن کرتے تھے‘ یہ انہیں مٹی کے تابوت میں رکھ دیتے تھے‘ یہ انہیں جانوروں اور پرندوں کو کھلانے کےلئے کھلے میدان میں رکھ دیتے تھے اور بعد ازاں ان کی ہڈیاں اکٹھی کر کے برتن میں ڈال کر دفن کر دیتے تھے اور یہ لاش کو ویرانے میں چھوڑ آتے تھے‘ میں نے یہ سن کر اندازہ لگایا موہنجو داڑو میں تین مذاہب تھے‘ کیوں؟ کیونکہ دنیا کے مختلف مذاہب میں مُردوں کی تدفین کے مختلف طریقے ہوتے ہیں اور یہ تین طریقے تین مذاہب کی نشاندہی کرتے ہیں‘
شہر سے مچھلی پکڑنے کا کانٹا اور مٹی کے قلم بھی ملے‘ ان کا خط تصویری تھا اور یہ پتھر اور مٹی کی تختیوں پر لکھتے تھے لہٰذا یہ کاغذ‘ چھال اور کھال پر لکھنے کے دور سے پہلے کے لوگ تھے‘ شہر سے تلوار بھی نہیں ملی‘ تلوار کی کمی ثابت کرتی ہے یہ ہتھیاروں اور جنگوں کے دور سے بھی پہلے کے لوگ تھے‘ یہ شہر سات بار تباہ ہوا اور سات ہی بار آباد ہوا‘ یہ آخری بار بودھ مت کے دور میں آباد ہوا اور یہ اس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ختم ہو گیا‘
اس کی بربادی کی بے شمار وجوہات بیان کی جاتی ہیں لیکن میں اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں یہ شہر کسی بڑی بربادی‘ زلزلے‘ وبائ‘ شہاب ثاقب اور جنگ کا شکار نہیں ہوا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو شہر سے بڑی تعداد میں جلی یا ٹوٹی ہوئی ہڈیاں ملتیں جبکہ یہاں سے دو تین درجن سے زائد لاشوں کی ہڈیاں نہیں ملیں‘ اس کا مطلب ہے یہ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے‘ امکان ہے دریا دائیں سمت سے بہتے بہتے بائیں جانب آ گیا ہو گا اور یہ شہر پانی میں ڈوب گیا ہو گا‘
دریا نے اسے صدیوں تک ریت میں بھی دفن رکھا ہو گا‘شہر کی اینٹوں پر پانی اور ریت دونوں کے اثرات صاف ملتے ہیں‘ گائیڈ نے بھی میری آبزرویشن سے اتفاق کیا‘شہر سے وافر مقدار میں بچوں کے مٹی کے کھلونے بھی ملے‘ یہ ثابت کرتے ہیں یہ لوگ بچوں سے بہت محبت کرتے تھے اور بچوں سے محبت کسی بھی تہذیب کا نقطہ عروج ہوتا ہے‘ شہر کا تیسرا حصہ وی ایس کہلاتا ہے‘ یہ حصہ ایم ایس واٹس نے دریافت کیا تھا اور اس میں مڈل کلاس رہتی تھی‘ اس کی گلیاں نسبتاً تنگ اور گھر چھوٹے تھے
یہ لوگ مارکیٹ کے قریب بھی رہتے تھے جس کا مطلب ہے یہ ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتے تھے‘ شہر کی بنیادیں 30 فٹ گہری ہیں‘ یہ بنیادیں ثابت کرتی ہیں یہ شہر بار بار تباہ ہوتا رہا اور یہ لوگ تباہ شدہ شہر کے اوپر نیا شہر آباد کرتے رہے یہاں تک کہ 72فٹ اونچا ٹیلہ بن گیا‘ اس اونچے ٹیلے پر آخری آبادی بنی‘ وہ آخری لوگ بودھ مت تھے اور وہ دوسری صدی عیسوی میں یہاں آباد ہوئے‘ ان لوگوں کی آبادی شہر کا چوتھا حصہ تھی‘ یہ حصہ بالائی موہنجو داڑو کہلاتا ہے‘
آپ اگر 20 روپے کا نوٹ دیکھیں تو آپ کو اس کی پشت پر موہنجو داڑو کی تصویر ملے گی‘ یہ تصویر اس حصے کی ہے اور اس میں آپ کو سٹوپا نظر آتا ہے‘ یہ سٹوپا آج بھی یہاں موجود ہے اور شہر کا پانچواں حصہ سیکورٹی حصار پر مشتمل تھا‘ یہ بالائی موہنجو داڑو کے پیچھے ذرا سا ہٹ کر واقع ہے‘ شہر کے رکھوالے وہاں رہتے تھے۔موہنجو داڑو تہذیب‘ آرکی ٹیکچر‘ تمدن اور معاشرت کا نقطہ آغاز تھا‘ یہ شہر اجڑا‘ لوگ یہاں سے گنگا اور جمنا کے ڈیلٹاﺅں میں آباد ہوئے اور وہاں سے ہندو تہذیب شروع ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس عظیم سیاحتی خزانے سے نواز رکھا ہے لیکن وہاں جا کر دل خون کے آنسو روتا ہے‘ پورے ماحول میں خاک اڑتی رہتی ہے‘ نہ بیٹھنے کی ڈھنگ کی جگہ ہے اور نہ کھانا کھانے کی‘ آپ ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے ظالموں نے لاڑکانہ کا ائیرپورٹ بھی موہنجو داڑو کے آثار پر بنا دیا ہے‘ باقی نوے فیصد شہر رن وے کے نیچے دفن ہو چکا ہے‘ سکولوں کے بچے اور میرے جیسے نالائق سیاح دیواروں کے اوپر پھرتے رہتے ہیں‘ یہ پانی کی بوتلیں اور ریپر بھی وہاں پھینک دیتے ہیں‘
آپ المیہ دیکھئے آج سے ساڑھے چار ہزار سال پرانے لوگوں نے شہر میں کچرہ گھر بنائے تھے لیکن آج کے انسانوں نے یہ تکلف نہیں کیا‘ ساڑھے چار ہزار سال پرانے شہر میں پبلک ٹوائلٹس تھے لیکن آج کے موہنجو داڑو میں یہ سہولت انتہائی ناقص اور بدبودار ہے‘ اس شہر سے ساڑھے چار ہزار سال پرانی گندم مل گئی لیکن آپ آج کے چائے خانے سے چائے پینے سے پہلے دس بار سوچتے ہیں‘ آپ تقابل کیجئے پیرس نے 1889ءمیں لوہے کا آئفل ٹاور بنایا‘
یہ ہر سال لوہے کا یہ بدصورت ڈھانچہ کروڑوں لوگوں کو دکھا کر 100 ارب یورو کما لیتا ہے جبکہ ہمارے پاس دنیا کا پہلا میٹرو پولیٹن شہر ہے لیکن ہم اس سے سالانہ دس لاکھ روپے بھی نہیں کما پا رہے‘ یہ شہر اگر یورپ میں ہوتا تو یقین کیجئے یہ دس عرب ملکوں کے کل تیل سے زیادہ رقم کما چکا ہوتا لیکن ہم نالائق لوگوں نے اسے بھی عبرت کی نشانی بنا دیا چنانچہ میری حکومت سے درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر یہ شہر کسی یورپی ملک کو گفٹ کر دیں‘ہم موہنجوداڑو کے قابل نہیںہیں۔

No comments:

Post a Comment